ہم لوگ کشمیری ہیں میری والدہ صاحبہ حیات ہیں لیکن اب کچھ ایسی باتیں کرتی ہیں کہ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں یا شاید جو وہ کہتی ہیں اس کی کوئی حقیقت ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
بقول میری والدہ صاحبہ میری نانی صاحبہ کے ساتھ ایک چڑیل تھی جو آتی تھیں تو نانی صاحبہ ڈر جاتی تھیں وہ کہتی تھی کہ یہ میری بیٹی ہے۔ نانا ابو اسے جھڑکتے تھے وہ چلی جاتی تھی۔
میرے والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ کئی مرتبہ دہلی گئی ہیں اور وہاں حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھی جاتی رہیں۔
کم وبیش 20 سال پہلے وہ اپنے نواسے کے ساتھ ہسپتال میں تھیں نواسے کا آپریشن تھا۔ رمضان تھا کوئی بزرگ ان سے ملے جن کو انہوں نے دودھ اور خربوزہ سے روزہ رکھوایا اور انہوں نے کہا کہ پہلے ہم آپ کے گھر گئے تھے وہاں تالا لگا ہوا تھا پھر ہم یہاں آئے ہیں۔ بقول ان کے اس کے بعد وہ کئی مرتبہ رات کو ان سے ملنے گھر بھی آئے ہیں اور نقاب میں ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو لینے آئے ہیں لیکن والدہ انکار کرتی رہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔ہم لوگ گھر پر بھی ہوں تو ہمیں تو پتہ نہیں چلنا تھا لیکن صبح کو اٹھ کر وہ ہمیں بتاتی تھیں کہ رات کو وہ آئے تھے اور پھر چلے گئے وہ سوئی ہوتی تھیں تو ان کو پتہ چل جاتا تھا کہ وہ آئے ہیں اور واللہ اعلم کہ وہ دروازہ کھولتی تھیں یا وہ خود اندر آجاتے تھے یہ ہمیں علم نہیں۔
اب پچھلے چھ‘ سات سال سے ہمیں وہ یہ کہانی سناتی ہیں بلکہ ہر آنے والے کو سناتی ہیں کہ ان کی شادی کسی خان صاحب سے ہوگئی ہے جنہوں نے انہیں اتنا زیادہ زیورڈ الا ہے جو کہ ان کی ماما کے پاس ہیں۔ یہ ماما ان کے بچپن میں کوئی کرسچین نرس تھیں جو ان سے پیار کرتی تھیں اور نانا ابو سے کہتی تھیں کہ یہ مجھے دے دو میں اسے اپنی بیٹی بنالوں گی لیکن نانا ابو نے انکار کردیا تھا۔ وہ کہتی ہے کہ میری ماما مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتی ہیں اور میرا سارا زیور ان کے پاس محفوظ ہے اور جو وہ خان صاحب کہتی ہیں وہ کوئی نانا ابو کے دوست کا بیٹا ہے جس کا نام لیتی ہیںا ور جہاں بھی وہ رہتی ہیں یہی کہتی ہے کہ میں نے اپنے گھر جانا ہے۔ باہر خان صاحب نے گاڑی بھیجی ہے اور باہر جانے کو لپکتی ہے حالانکہ ان سے چلا بھی نہیں جاتا تھا۔ لیکن نامعلوم اس وقت ان میں ایسی کون سی طاقت ہوتی ہے کہ وہ خود چلنا شروع کرتی ہیں حالانکہ باہر کوئی بھی نہیں ہوتا ان کی عمر اس وقت کم و بیش نوے سال کے قریب ہے۔
اب اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ اس میں حقیقت کیا ہے لیکن وہ جس اعتماد سے بات کرتی ہیں کوئی محسوس نہیں کرسکتا کہ یہ غلط بیانی کررہی ہیں بلکہ کئی افراد گھر آئے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں